کربلا کے معصوم شہید

61ہجری دس محرم الحرام  یوم عاشور کے دن کو شہیدان کربلا کی یاد میں منایا جاتا ہے لیکن کربلا کے درجنوں معصوم شہیدان میں دو شہید کربلا  ایسے بھی ہیں کہ کہ جن کا ذکر سن کر ہر دل تڑپ اٹھتا ہے اور جن کاذکر اگر نہ کیا جائے تو کربلا کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی اسی لئے  دس محرم یوم عاشور کو ان معصوم شہیدان کربلا کا بھی ہر اہلبیت سے محبت رکھنے والا ضرور ذکر کرتا ہے  ان دو معصوم میں پہلا شہید حضرت علی اصغر ہیں جو کہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کےسب بے چھوٹے بیٹے ہیں جبکہ دوسری شہید معصوم بی بی سکینہ ہیں پہلے معصوم جناب علی اصغر کی عمر مبارک تقریبا تین ماہ اور کچھ دن ہے جبکہ دوسری  شہید معصوم بی بی سکینہ کی عمر تین سات ماہ اور چار یوم تھی سال ہے کربلا کے یہ دونوں شہید امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد ہیں دس محرم الحرام یوم عاشور کو امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ صبح سے شام تک کربلا کے ایک ایک شہید کی لاش کو اٹھا کر لاتے اور اپنے خیمے کے باہر رکھ دیتے  شام کی دھند چھانے لگی ہے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے تمام اصحاب ایک اور خاندان اہلبیت کے لوگ شہید ہو چکے ہیں اب کوئی باقی نہین بچا امام خیام کی جانب یہ صدا لگاتے ہوئے جارہے ہیں کہ ہے کوئی جو ہماری مدد کرے اس صدا کا بلند ہونا تھا کہ چھ ماہ کا علی اصغر اپنے جھولے میں تڑپ اٹھتا ہے اور مچلنے لگتا ہے والدہ رباب آکر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے کہتی ہیں کہ نہ جانے یہ کیوں تڑپ رہا ہےآپ اسے میدان لے جائیں شاید کہ ان بدبختوں کو اس معصوم پر رحم آجائے حضرت رباب علی اصغر کو تیار کرتی ہیں اور امام حسین انہیں مقتل گاہ کی جانب لئے جارہے ہیں آسمان وزمیں انگشت بدندان ہیں کہ یہ کیا ہونے جارہا ہے ایک معصوم  فوج اشقیاءکی جانب جارہا ہے

اے اللہ اب نہ قاسم میرا باقی ہے نہ اکبر باقی

بھانجے ہیں بھتیجے نہ برادر باقی

اب فقط سر میرا باقی ہے اور اصغر باقی

سر فدا کر کے شریک شہداء ہوتا ہوں

اے اللہ آج میں تیری امانت سے ادا ہوتا ہوں

معصوم علی اصغر کوامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ لشکر کی جانب لے کر جاتے ہیں علی اصغر معصوم ایک چادر میں لپٹے ہیں فوج یزید میں چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں شاید صلح کرنا چاہتے ہیں قرآن لارہے ہوں گے شمر اور عمرو بن سعد فوج کے درمیان کھڑے کہ رہے ہیں اب اس سوا اور بچا بھی کیا ہے کہ وہ صلح کر لیں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ یزیدی لشکر سے کہتے ہیں کہ دیکھو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے اس معصوم کو کس لئے پیاسا رلاتے ہو اس کو چند گھونٹ پانی دے دو عمر بن سعد کہنے لگا کہ حسین پیاس خود کو لگی ہے اور بچے کو سامنے لا کر پانی حاصل کرنا چاہتے ہو

وعدہ تو کرنا آتا ہے وعدے کو پورا کون کرے

سر دے جان وجگر دے کے دیکھو تو ایسا کون کرے

فرماتے تھے شاہ کرب وبلا جنت کا سودا کون کرے

شبیر نے ہنس کر فرمایا پانی کی تمنا کون کرے

جب ذکر خدا سے تر ہے زباں پانی کا شکوہ کون کرے

عمر بن سعد اور شمر کہنے لگے حسین بہانے نہ بنائیں بچے سے کہیں کہ خود پانی مانگے تبھی پانی مل سکتا ہے  امام حسین نے علی اصغر سے کہا کہ بیٹے علی اصغر انہیں منہ کھول کر دکھاؤ معصوم علی اصغر نے خالی نظروں سے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ بابا میں اپنے بڑے بھائی علی اکبر کے قاتلوں سے پانی مانگوں پھر معصوم علی اصغر نے لشکر یزید کی جانب منہ کیا اور منہ کھولا ہی تھا کہ چھ ماہ کے معصوم کے حلق سے العطش العطش کی صدا بلند ہونے لگی یزیدی فوج نے جب یہ منظر دیکھا تو فوج میں کھلبلی مچ گئی یزیدی فوجی اپنے کئے پر نادم ہوئی اور فوجی رونے لگے عمر بن سعد شمر سے کہا کہ بچے کے کلام کو منقطع کر شمر نے حرملہ کو اشارہ کیا یہ بڑا ماہر تیر انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا لیکن حرملہ کے پاس صرف ایک ہی تیر تھا جس کو سہ شبہ کہا جاتا ہے  یہ لوہے کا تین منہ والا تیر ہوتا ہے اس کو عرب بدؤ اونٹون وغیرہ کو نحر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے اور یہ وہ تیر تھا جس کے بارے میں عرب کے بدؤں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ اسے کسی انسان پر نہیں چلایا جائے گا عرب کے بدؤ اسے وحشی جانورون پر چلایا کرتے تھے اس کا وزن بھی اتنا ہوتا ہے اسے کھڑے کھڑے نہیں چلایا جاسکتا اسے چلانے کے لئے لازمی ایک گھٹنا زمیںپر ٹیکنا پڑتا تھا شمر نے حرملہ سے کہا یہی تیر چلاؤ جلدی کروورنہ بڑی خرابی ہو جائے گی حرملہ نے تیر کمان پر چڑھا کر ایک گھٹنا زمین پر ٹیکا اور تیر چلادیا تیر معصوم علی اصغر کے گلے میں پیوست ہوگیا اور کربلا کا وہ ننھا معصوم امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا امام عالی مقام نے معصوم علی اصغر کے خون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر آسمان کی جانب پھینک دیا امام باقر فرماتے ہیں کہ اس خون کا ایک بھی قطرہ زمیں پر لوٹ کر نہ آیا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ معصوم علی اصغر کی لاش کو خیموں کے پاس لے کر آئے علی اصغر کالاشہ تمام شہداء میں سب سے چھوٹا تھا لیکن سب شہداء سے بھاری تھا تمام دن لاشے اٹھاتے اٹھاتے حسین نہ تھکے لیکن علی اسغر کے لاشے نے امام کو تھکا دیا امام نے تلوار سے ایک جگہ کھود نی شروع کی چونکہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ غم کی کیفیت میں تھے اس لئے ان کی زوجہ اور علی اصغر معصوم کی والدہ نے قبر کھودنے میں مدد کی معصوم علی اصغر کو قبر میں رکھ کر مٹی برابر کردی گئی اور قبر کا نشان بھی مٹا دیا گیا یہیں سے کربلا کی دوسری معصوم شہید بی بی سکینہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آکر کہتی ہیں کہ بابا بھائی کو پانی پلا کر لے آئے؟کیا اس نے پانی پی لیا ؟ہمارے لئے پانی نہیں لائے ؟معصوم سکینہ کے یہ سوال امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے دل کو چیرے دیتے ہیں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بی بی سکینہ معصوم سے بہت محبت تھی جیسی محبت رسولﷺ کو فاطمہ زہرا سے اور حضرت علی کو بی بی زینب سے تھی امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے ان کانام فاطمہ رکھا جبکہ والدہ نے رقیہ نام تجویز کیا بی بی سکینہ روزانہ اپنے با با امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سینہ اقدس پر سر رکھ کر سوتی تھیں لیکن جب سے کربلا پہنچی تھیں اس کے بعد انہیں مہلت نہ مل سکی کہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سینے پر سر رکھ کر سو سکیں اب امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کربلا کے میدان کی جانب چلتے ہیں شا م کا اندھیرا چھانے لگا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ یزیدی فوج کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے لگے کہ اچانک شمر ملعون بولا کہ یہ علی وفاطمہ کا بیٹا ہے اس پر یکبارگی حملہ کر کے اسے ختم کرڈالو

دم لینے دو نہ فاطمہ زہرا کے چین کو

سینے پہ نیزے رکھ کے گرادو حسین کو

چشم زدن میں سنکڑوں نیزے بھالے تیر اور تلوار امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب بڑھے  اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے خالق حقیقی سے جاملےمعصوم سکینہ قریب ہی یہ کرب ناک منظر دیکھ رہی تھی اب شمر لعین نے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر اقدس کو زلفوں سے پکڑا اور زمیں پر اوندھا کرکے گردن پر وار کرنے لگا معصوم سکینہ بیچ میں آجاتی اور کہتی کہ مت مار میرے بابا کو مت مار تو وہ لعین معصوم سکینہ کو دھکے دیتا اور تھپڑ مارتا کربلا تمام ہوئی تو خیموں میں کسی نے پانی پہنچا دیا حضرت زینب نے سکینہ سے یہ کہا کہ  سکینہ لو پانی پی لو سکینہ نے کہا کہ پھو پھی اماں پہلے آپ پیئیں حضرت زینب نے کہا پہلے بچے پیئیں گے معصوم سکینہ نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگی پھر تو پہلے چھوٹے بھیا اصغر کو پلاؤں گی اور اندر کی جانب دوڑ لگادی جھولا خالی تھا مؑصوم علی اصغر اس میں نہ تھا اس کے بعد یزیدی فوج نے خیام حسینی کو لوٹنا شروع کیا خیموں کو آگ لگادی گئی  معصوم سکینہ کو تھپڑ مارے گئے ظالموں نے سکینہ کے کانوں سے بالیاں بھی کھینچ لیں جس سے معصوم کے کے کان زخمی ہو گئے اور ان سے خون بہنے لگا خیموں کو اکھاڑ دیا گیا شہداء کے سر نیزوں پر بلند کئے گئے تو کسی نے کہا کہ اس میں شہید علی اصغر کا سر نہیں کسی نے بتا کہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے معصوم کی قبر خیموں کے پیچھے بنائی  تھی  یزیدی فوج نے خیموں کے پیچھے کی ساری زمیں نیزوں سے کھود ڈالی اچانک ایک جگہ نیزہ پیوست ہوا اور شہید علی اصغر  کا جسد نیزے میں پرویا ہوا زمیں سے باہر آگیا معصوم کے سر کو کاٹ کر نیز ے پر چڑھا دیا گیااب یہ لٹا پٹا قافلہ اور شہیدان کربلا کےسر کربلا سے چلے راستے میں شہیدان کربلا کے لاشے پڑے ہیں سجاد یہ جانتے ہیں کہ جب معصوم سکینہ شہید امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لاشے کو دیکھے گی تو برداشت نہ کر پائے گیتو فوج یزید اس پر مزید ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے گی

سجاد یہ کہتے تھے معصوم سکینہ سے

بابا کے لاشے ست چپ چاپ گزر جانا

معصوم سکینہ کربلا میں پڑے بے گور وکفن امام کے لاشے کو حسرت بھرے نگاہ سے دیکھتی ہوئی گزر گئیں جیسے زبان حال سے کہہ رہی ہوں کہ بابا میں نے آپ کے سینے پر سر رکھ کر سونا ہے کہتے ہیں کہ امام کے سر بریدہ جسم اقدس کو دیکھنے کے بعد معصوم سکینہ ایک دن بھی نہ سو سکی عمر بن سعد نے اس قافلے اورشہیدان کربلا کے  سروں کو ابن زیاد کے پاس کوفے بھیج دیئے  اس کے بعد اس قافلے کو یزید لعین کے دربار پہنچا دیا گیا جہاں اس نے شہید کربلا امام حسین کے سر اقدس کی بے حرمتی بھی کی اسیران کو زندان میں ڈالنے کا حکم دیا گیازندان کی صعوبتیں جھیلتی ہوئی معصوم سکینہ نے با با بابا کرتے ہوئے زندان میں جا ن دے دی اور انہیں سید سجاد نے زندان کے دروازے میں ہی دفن کر دیا ایک روایت یہ بھی ہے کہ  معصوم سکینہ نے کوئی بھی لمحہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے  شہید ہونے کے بعد سکھ وچین کا نہیں گزارا وہ ہر وقت روتی رہتیں اور با با با با پکارتی رہتیں ایک دن جب وہ اسی طرح رو رہی تھیں تو درواغہ نے پوچھا کہ کیوں روتی ہے کہا مجھے با با یاد آرہے ہیں اس بدبخت نے کہا کہ بابا سے ملنا چاہتی ہے تو معصوم سکینہ نے ہاں میں جواب دیا تو وہ ملعون امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کاسر لے آیا اور کہا کہ لے مل لے اپنے با با سے جب معصوم سکینہ نے یہ منظر دیکھا تو اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور بی بی سکینہ قید یزید میں شہید ہو گئیں بی بی سکینہ تمام اہلبیت اطہار کی چہیتی تھیں ان کو پیدائش کے بعد اہل بیت کبھی نیچے نہ چھوڑتے تھے کبھی قاسم کبھی اکبر کبھی حضرت رباب کبھی حضرت زینب کی گود میں ہوتیںرات کا امام حسین کے سینے پر سر رکھ کر سوتیں کربلا سے شام کاسفر پیدل طے کرنے والی  معصوم شہزادی اور شہزادہ شہید علی اصغر کو ہمارا سلام ہو۔

یہ بھی پڑہیں: کربلا کے بعد اور دربار یزید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top