Saturday, December 7, 2024
HomeColumnsپاکستانی بچے میتھ میں کیوں کمزور ہیں؟ ماہرین سر جوڑ کے بیٹھ...

پاکستانی بچے میتھ میں کیوں کمزور ہیں؟ ماہرین سر جوڑ کے بیٹھ گے

پاکستانی بچے میتھ میں کیوں کمزور ہیں؟ ماہرین سر جوڑ کے بیٹھ گے

جبران عباسی

گزشتہ برس آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ ایجوکیشن ڈویلپمنٹ کی طرف سے ایک سروے منعقد کیا گیا جس میں 15 ہزار پاکستانی بچوں کو شریک کیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد بچے میتھ اور سائنس کے بیسک کنسپٹ بتانے میں ناکام رہے۔

ایسی کئی دوسری رپورٹس بھی موجود ہیں۔
مثلاً 2017 میں نیشنل ایجوکیشن کمیشن نے کلاس چہارم کے ایک ہزار طلبا سے میتھ کا ٹیسٹ لیا جس میں صرف 433 طلبا ٹیسٹ پاس کر سکے تھے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کلاس پنجم کے صرف 37 فیصد بچے تین اعداد کو ایک عدد پر تقسیم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

سال 2019 میں انٹرنیشنل میتھمیٹکس اینڈ سائنس سٹڈی نے اپنے نتائج میں پاکستان طلبا کو سائنسی اور حسابی مضامین میں کمزور ترین قرار دیا تھا۔ 60 ممالک نے اس بین الاقوامی تنظیم کے مقابلے میں حصہ لیا تھا جس میں پاکستان کا نمبر 59 تھا۔

ان سب اعدادو شمار کے علاوہ بھی ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے بچے اکثر میتھ کو ایک بور مضمون سمجھتے ہیں اور اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میتھ کو پاکستانی بچوں پر ایک نفسیاتی برتری حاصل ہے۔

آخر کیا وجہ ہے جس ملک میں دنیا کی سب سے کم عمر ترین مائیکروسافٹ ایکسپرٹ ارفع کریم پیدا ہوتی ہے اسی ملک کے نوے فیصد بچے میتھ میں نالائق ہیں۔ آخر خامی کہاں ہے اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی بچے میتھ میں

ریاضی میں کم زوری کے بنیادی اسباب

پاکستانی بچے یورپین بچوں کی نسبت میتھ میں خاصے کمزور ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن کا سدباب کر کے ہم اس خامی کو دور کر سکتے ہیں۔

1: نصاب تعلیم

سب سے بڑی خامی تو خود بوسیدہ نصاب ہے۔ نصاب قدرے مشکل اور طویل بنا دیا جاتا ہے۔ نصاب بناتے وقت ان چیزوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

1) نصاب بچوں کی ذہانت کے مطابق ہو۔(2) سیکھنے کے وسیع مواقع ہوں (3) نصاب کا مواد بامقصد اور روزمرہ مثالوں پر مبنی ہو (4) نصاب جدید تقاضوں کو پورا کرے مگر اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہو۔

پاکستان میں ہر صوبے کا اپنا نصاب ہے ، اس کے علاؤہ پرائیویٹ سکول اپنے نصاب رکھتے ہیں مثلاً آکسفورڈ ، آفاق وغیرہ۔ ہماری قومی نصاب پالیسی تو موجود ہے مگر قومی سطح پر کوئی نصاب نہیں ہے۔ نصاب اپنی طوالت اور غیر ضروری مواد کی وجہ سے بچوں کی ذہنی صلاحیت پر ایک دباؤ بن جاتا ہے اور وہ دلچپسی کھو دیتے ہیں۔ میتھ سائنس کی کنجی ہے، جو بچے میتھ میں پرفارم نہیں کرتے ان کی سائنس میں بھی پرفامنس کمزور ہوتی ہے۔

ہونا یہ چاہیے کہ قومی سطح پر ایک مشترکہ نصاب نافذ کیا جائے، نصاب مختصر ہو ، روزمرہ مثالوں پر مبنی ہو ، عملی زیادہ ہو۔ سب سے بڑھ کر نصاب کو یا تو اردو میں کیا جائے یا انگریزی میں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا ایشو نصاب کی زبان کا منقسم ہونا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کے علاؤہ اور کہیں بھی دو زبانوں میں نصاب نہیں پڑھایا جاتا۔

پاکستانی بچے میتھ میں

2: رٹہ سسٹم

پاکستان کے نظام تعلیم کی دوسری بڑی خامی رٹہ سسٹم ہے۔ رٹہ سسٹم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ یہاں ابھی تک روایتی پیپر مارکنگ نظام ہے جو زیادہ لکھے گا وہی زیادہ نمبر لے گا۔پرائیویٹ سکولوں نے ایک ملٹی ملین ڈالر انڈسٹری کھڑی کر دی ہے۔ ایجوکیشن سیکٹر کا ریونیو کھربوں روپے سالانہ ہے۔ پرائیویٹ سکولوں نے “نمبروں کی ریس” شروع کر رکھی ہے۔

بچوں کو سائنس ، میتھ ، سوشل سائنسز کے نوٹس دیے جاتے ہیں اور سال میں کم سے کم دو بار ان کی دہرائی کی جاتی ہے۔ بےشک کنسپٹ کلئیر نہ ہو مگر نوٹس زبانی یاد ہونے چاہیے۔

بچے ان نوٹس کو رٹا لگا کر زبانی یاد کر لیتے ہیں اور امتحانات میں لکھ کر اچھے نمبر لے لیتے ہیں۔ تاہم ان میں سے چند ہی بچے انجینرنگ یا میڈکل کا ٹیسٹ پاس کر پاتے ہیں کیونکہ یہ ٹیسٹ کنسپٹ بیسڈ ہوتے ہیں۔

رٹا سسٹم کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ بچے کنسپٹ سے دور ہو گے ہیں۔ بالخصوص میتھ کبھی بھی رٹے سے نہیں سیکھی جا سکتی۔ بچے جب دیگر مضامین رٹہ لگا کر سیکھ جاتے ہیں تو میتھ انھیں ایک بوریت دینے والا مضمون لگتا ہے جس میں وہ رٹہ نہیں لگا سکتے۔

رٹہ سسٹم نے بچوں کے تجسس اور سیکھنے کے شوق کو محدود کر دیا ہے۔ بچے اب پرتجسس نہیں رہے۔ وہ ایسے مضمون کو صاف طور پر ناپسند کرتے ہیں جن میں انھیں اپنی دماغی صلاحیت کو آزمانا پڑے۔ میتھ ایک ایسا ہی مضمون ہے جہاں بچے کو مکمل فوکس کے ساتھ اپنی دماغی صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا پڑتا ہے ۔

بوسیدہ نصاب اور رٹہ سسٹم یہ دو بنیادی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں بچے میتھ میں کمزور ہیں تاہم کچھ اور وجوہات بھی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی بچے میتھ میں

3: بچے حساس ہیں اور جلد مایوس ہو جاتے ہیں:

ایک مشہور کینیڈین تنظیم Jump math کی بانی جان مائٹن وائن سالوں برس کے تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ:

” بچے چھوٹی عمر سے ہی اپنا موازنہ دوسرے بچوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ وہ کس سبجیکٹ میں اچھے ہیں اور کس میں نہیں اور پھر جس موضوع میں وہ کمزور ہوتے ہیں اس میں محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ریاضی میں یہ مسلہ سب سے زیادہ ہے کیوں کہ ریاضی میں اگر ایک چیز سمجھ نہ آئے تو اگلی تو بلکل بھی نہیں آتی اور یوں بچے کی کارکردگی گرتی چلی جاتی ہے”۔

ہمیں بچوں میں مثبت موازنہ کرنے کا رحجان پیدا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچے کے سامنے کسی دوسرے بچے کو رول ماڈل نہیں بنانا چاہیے۔ یہ عام روش ہے کہ والدین اپنے بچے کو طنز کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں بچے کے اتنے مارکس تھے۔ بچے حساس ہوتے ہیں اور وہ جلد مایوس ہو جاتے ہیں یوں ڈرامائی طور پر ان کی پرفامنس گر جاتی ہے۔

میتھ ڈپریشن یا math anxiety:

کیا آپ جانتے ہیں پاکستان میں ہر دس میں سے تین بچے math anxiety کا شکار ہیں مگر اس نفسیاتی کیفیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

جب کسی بچے کو ریاضی سیکھنے میں مسلسل مشکلات پیش آئیں تو وہ بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بے چینی اس کے اندر ایک خاموش ڈپریشن پیدا کرتی ہے جسے math anxiety کہتے ہیں۔ بچے میتھ کا نام سن کر ہی خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان بچوں میں اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور وہ سیکھنے کی کوشش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بچے رفتہ رفتہ پڑھائی سے دور ہونے لگتے ہیں۔ سکول ان کو قید لگتی ہے۔ یہ بچے شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ ہم کبھی اس زاویے سے ان بچوں کو نہیں دیکھتے تو یہ نظرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہم ان بچوں کو نالائق سمجھ کر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

میتھ ڈپریشن کو قابو کرنے کےلئے باقاعدہ سیشنز درکار ہیں ، اگر آپ کا بچہ کسی ایک کیفیت کا شکار ہے تو معالج کے پاس لے جائیں۔ چند ہی تھراپیز میں وہ بہتر محسوس کرے گا۔

سکول اور والدین کی سپورٹ

انگریزوں کے بچے کیوں ذہین ہوتے ہیں؟ کیونکہ وہاں بچوں کی حساسیت کو بخوبی سمجھا جاتا ہے۔ بچے کی خامی یا کمزوری کو سکول اور والدین اپنی کمزوری سمجھتے ہیں۔ وہاں بچوں کو سکول ، گھر اور کمیونٹی تینوں سمتوں سے سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ اس سپورٹ سے بچے پراعتماد ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں۔

ہمیں بھی اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے ، ہمارے ہاں بچوں کو سکول اور گھر ہر جگہ طنز یا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارا یہ رویہ بچو کا حوالہ توڑ دیتا ہے۔

کیا آپ کا بچہ واقعی میتھ کےلیے موزوں ہے؟

ہم بچوں کی پڑھائی کو لے کر ہمیشہ لکیر کے فقیر ہیں۔ ائن سٹائن کا یہ قول میرا بےحد پسندیدہ ہے” اگر تم مچھلی کی قابلیت کا امتحان اس کی درخت پر چڑھنے کی صلاحیت سے لگاؤ گے تو یقیناً تم بیوقوف ہو”۔

اس قول کو سمجھنے کےلئے آپ کو “تارے زمین پر ” فلم لازمی دیکھنی چاہیے۔ عامر خان کی اس فلم میں ایک بچے کو دکھایا جاتا ہے جو dyslexia کا شکار ہوتا ہے۔ اس بیماری میں بچے سیکھنے میں کمزور ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 15 فیصد بچے اس نفسیاتی کیفیت کا شکار ہیں مگر شاید ہی یہاں کوئی اس کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔

ہمیشہ اپنے بچے کی کونسلنگ کروائیں، اس کے رحجانات معلوم کرنے کی کوشش کریں اور انھی رحجانات کے مطابق اس کی تعلیم کا آغاز کریں۔

مستقبل صرف تخلیقی صلاحیت اور سوچ رکھنے والے لوگوں کا ہے۔ اپنے بچے کو لکیر کا فقیر مت بنائیں بلکہ اس کی تخلیقی صلاحیت اور کے مطابق اس کا مستقبل ڈیزائن کریں۔

ذہن نشین کر لیں ہر بچہ میتھ یا سائنس کےلئے نہیں ہے اور کوئی بھی بچہ نالائق نہیں ہوتا۔ بس آپ اسے وہ موافق ماحول نہیں دے پا رہے ہیں جس میں وہ سیکھ سکتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھئیے:

پاکستان کی دس بہترین یونیورسٹیاں جو آپ کے خوابوں کی تعبیر کر سکتی ہیں

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی