دس محرم الحرام یوم عاشور اور پیغام کربلا

یوم عاشور دس محرم الحرام 61ہجری  میدان کربلا تاریخ انسانی کا وہ دن ہے کہ جس دن اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ اقدس میں تاریخ انسانی کی سب سے عظیم قربانی رب کے دین کی عظمت وسربلندی کی خاطر امام حسین نے اپنے رب کے حضور پیش کی اور عالم دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دین پر سے سب کچھ وارا جاسکتا ہے لیکن دین کو کسی چیزپر اور کسی صورت میں تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔

دس محرم الحرام کو میدان کربلا میں نواسہ رسول نے حامیان اسلام کو اس بات کا پیغام دیا کہ جب تک انسان اللہ کے دین کی خاطر اپنے تن من  اور دھن کی قربانی نہیں دی جائے تب تک ہم کامل مومن کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے امام حسین کا یہ پیغام یوم عاشور کرہ ارض پر کچھ اس طرح سے پھیلا کہ کربلا کے حسین پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے لئے روشنی کا مینار بن گئے 61 ہجری یوم عاشور کربلا کا یہ پیغام آج سے لے کر رہتی دنیا تک کے انسانوں کو حریت ، دین سے وفاداری ،آزادی سربلندی اسلام  دینی حمیت اور اعلا کلمتہ حق کی  خاطر لڑنے کاپیغام ہے۔

حسین ابن علی دس محرم الحرام کو فوج یزید کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں سامان حرب کی کمی جمعیت کی قلت کوئی بھی شے ان کے پایہ استقلال کو متزلزل نہ کرسکی جواں سال علی اکبر کو خدا کی بارگاہ  میں اپنی آنکھوں سے سامنے حسین ابن علی نے قربان ہوتے دیکھااور زمانے کو یہ پیغام کربلا دیا کہ دنیا کی کوئی شے علی اکبر سے زیادہ حسین نہیں ہے لیکن جب اسلام پر وقت آپڑے تو علی اکبر کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔

چھ ماہ کے علی اصغر کے گلے میں تیر پیوست ہوا امام حسین کی آنکھوں کے سامنے لیکن حسین کا پیغام عاشور یہی ہے کہ اسلام پر علی اکبر جیسے معصوم کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے کڑیل جوان بھائی حضرت عباس کے بازو قلم کئے گئے مشک سکینہ کو تیر مارے گئے پانی خیموں میں نہ پہنچ سکا حسین نے یہ سب مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور دس محرم الحرام کو یوم عاشور یہی پیغام دیا کہ دین کی خاطر عباس جیسا جوانمرد بہادر بھی قربان کیا جاسکتا ہے کون ہے جو اپنے بچوں کو بھوک وپیاس سے بلکتے ہوئے دیکھ سکے۔

امام حسین کو خیموں سے آنے والی العطش العطش کی آوازیں بھی آرہی ہیں لیکن امام حسین نے کربلا کے اس میدان میں یوم عاشور یہی پیغام دیا کہ اسلام کے خاطر اپنے معصوم بچے تو قربان کئے جاسکتے ہیں لیکن کسی طور پر بھی باطل کی حمایت نہیں کی جاسکتی میدان کربلا میں  یوم عاشور امام حسین کی جانب سے دین اسلام کی سربلندی کی خاطردی جانے والی قربانیاں وہ ہیں جن کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی آج ساری دنیا میں کربلا  پیغام پہنچ چکا ہے دس محرم کی شام جب امام حسین نے اپنے رب کے حضور اپنی جان دی اور وٖدفدینہ بذبح عظیم کا مصداق ٹہرے جس کے متعلق علامہ اقبال نے بھی کہا کہ

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

ابتدا ہے اس کی اسمعیل انتہا ہے حسین

پانی کی بندش کربلا کی سختیاں اور مصیبتیں بھی امام حسین کے پایہ استقلال میں جنبش نہ پیدا کرسکیں اور دس محرم کو فضائے کربلا میں یہی پیغام حسینی گونج رہا تھا کہ

وعدہ تو کرنا آتا ہے وعدے کو پورا کون کرے

سر دے کے جان وجگر دے کے دیکھو تو ایسا کون کرے

فرماتے تھے شاہ کرب وبلا جنت کا سودا کون کرے

شبیر نے ہنس کر فرمایا پانی کی تمنا کون کرے

جب ذکر خدا سے تر ہے زباں پانی کا شکوہ کون کرے

عباس علی یہ بول اٹھے پانی نہ ملے تو کیا غم ہے

 ہم خلد میں جاکر دیکھیں گے کوثر پہ قبضہ کون کرے

دس محرم یوم عاشور کربلا کے میدان میں اہلبیت اطہار نے یہی پیغام دیا کہ دین اسلام پر ہر شے کو قربان کیا جاسکتا ہے لیکن دین کو کسی بھی قیمت پر قربان نہیں کیا جاسکتا نیزوں پہ بلند اہلبیت کے سر رہتی دنیا کو یہ پیغام دے گئے کہ اگر سربلندی چاہیئے تو باطل سے ٹکرانا ہوگا یزیدکے دربار میں حضرت زینب کے خطبے کا بھی پیغام یہی تھا  کہ جب جب دین کی جڑ کاٹنے کی کوشش کی جائے گی تب تب اللہ تعالی حسینی لشکر کو میدان میں اتارتے رہیں گے یزید کے ایک سپہ سالار نے امام حسین کو یہ پیغام دیا اور کہا کہ یزید کہتا ہے میرے پاس لشکر ہے میرے پاس فوج ہے میرے پاس حکومت ہے میرا مقابلہ ممکن نہیں امام حسین نے اسے یہ پیغام دیا کہ اے نادان دیکھ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ حسین سے ہی بیعت  مانگ رہا ہے کہ

حسین نے یوم عاشور یہ پیغام کربلا دیا

اس کا کوئی نہیں خداجس نے دیں کو بھلا دیا

رکھیں گے لاج اہلبیت ہی دین رسول ﷺ کی

کہ اللہ نے ان کو ہے یہ مرتبہ اعلی دیا

افسوس کہ آج حسین ابن علی کے اس پیغام کو امت رسول ﷺنے بھلا دیا آج فقط دس محرم اور یوم عاشور کے موقعے پر ہی ہم امام حسین کی قربا نیوںعظیم قربانی  اور کربلا کو یاد کرکے اور اس کا ذکر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہوگیاجبکہ حقیقت یوں ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کیا کربلا میں  دس محرم کو یہی پیغام دیا تھا امام حسیں نے کہ جب کشمیر وفلسطین شام وحلب میں خون کی ہولی کھیلی جائے تو 57 اسلامی مملکتوں کے سربراہان خاموشی کی چادر اوڑھ کر  منافقت کی نیند سوجائیں اور اس سلسلے میں ہونٹوں کو سی لیں افسوس آج ہم صرف حسینی کہلانے پر ہی فخر محسوس کررہے ہیں ہم نے اسوہ حسینی کو نہ تو اختیار کیا اور نہ ہی پیغام کربلا کو سمجھا آج فلسطین کے بچے بچیاں اور مظلوم لوگ امداد کے منتظر ہیں اور ہم اپنے اپنے مقام پر بے فکرہیں کیا یہی پیغام تھا کربلا کا جو امام حسین نے یوم عاشور دس محرم کو دیا آج فلسطین ہماری طرف دیکھ رہا ہے ظلم وبربریت کی وہان حد ہوگئی

مرشد وہاں یزیدیت حدسے گزر گئی

اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے

اور ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم سے سوال ہونا ہے ان لاچار وبے یار ومددگار لوگو ں کا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہ بچ پائے گا بروز قیامت اس سوال سے کہ جب فلسطین میں ایک کربلا بپا تھی

جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے

آپ کے پیچھے تیز ہوا اور آگے مقدر آپ کا ہے

اس کے قتل پہ مین بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا

میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے

یہ بھی پڑہیں: دین اسلام میں دعا کی اہمیت اور فضیلت

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top