14 اگست کا دن پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ وہ دن ہے کہ جس دن ہمارا ملک وجود میں آیا اور دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان بن کر ابھرا مسلمانان برصغیر کے لئے علیحدہ وطن کا حصول کوئی آسان کام نہ تھا انگریز کی غلامی میں صدیاں بیت چکی تھیں اور انگریز کسی صورت یہاں سے جانے کو تیار نہ تھا۔
ظلم وستم کے پہاڑ مسلمانوں پر توڑ ڈالے گئے ظلم کی چکی میں پستے پستے مسلمان اپنی شناخت تک کھو چکے تھے ملک مسلمانوں سے چھین کر انگریز نے انہیں غلام بنا لیا تھا صدیوں کی غلام گردشوں کے بعد آخر کار وہ وقت بھی آیا کہ جب 14 اگست کے 1947 کو ابھرتے ہوئے سورج کے ساتھ مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھری اور اور مسلمانوں کو انگریز کے ظلم وستم سے رہائی ملی
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیراں
اے قاید اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھا ئی تھی تباہی
ملک اپنا تھا اور غیر کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی اس نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لہرایا سر میدان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
یہ ملک اللہ کے فضل وکرم اور قائد اعظم اور مسلمانان بر صغیر کی جہد مسلسل اور انتھک محنت کا نتیجہ ہے حصول وطن کے لئے جو قربانیاں ہم نے دی ہیں۔
ان کا ذکر کرتے ہوئے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ہندوستان میں میلوں لمبی سڑ کوں پر واقع ہر درخت کے ساتھ کسی نہ کسی رہنماتحریک پاکستان یا پھر علماء کی لاشیں ٹنگی ہوتیں کوئی ظلم وستم ایسا نہ تھا جو انگریز نے روا نہ رکھا ہو ہندو انگریز کے کاسہ لیس بن کر مسلمانوں کا وجود ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
اور سازشیں اپنے عروج پر تھیں ہندو اور سکھ مقاصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے تھے لوٹ مار قتل وغارت گری کا میدان سجا ہوا تھا ہر سو خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی مسلمانان برصغیر کا کوئی پرسان حال نہ تھا ہندؤں اور سکھوں نے ملکر مسلمانوں کی جان مال اور عزت کے ساتھ خوب کھیلا صدیوں سے ہندوستان میں رہنے والے آج اپنے ہی پڑوسی کے شر سے بچنے کے لئے پناہ گاہیں ڈھونڈ رہے تھے۔
مسلمان بہنوں اور بیٹیوں کی عزت محفوظ نہ تھی ایک ایسا ہی دل خراش واقعہ ہے کہ ایک ماں رات کی تاریکی میں فسادات کے دوراں محفوظ پناہ گاہ کے لئے اپنے گھر کو خیر باد کہتی ہے اور اللہ کے آسرے پر نکل پڑتی ہے رات کی تاریکی میں اسے ایک بلوائیوں کا غول نظر آتا ہے جو کہ اس کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔
یہ عورت حاملہ بھی ہے اور اس کے ساتھ اس کے دو بچے عمریں بالترتیب تین اور سات سال ہیں عورت جب بلوائیؤں کو دیکھتی ہے تو ایک دکان کے پاس موجود آئل کے ڈرموں کی آڑ میں چھپ جاتی ہے بلوائی وہاں سے گزر جاتے ہیں لیکن عورت کو اندازہی ہو جاتا ہے اس سے محفوظ جگہ شاید آگے نہ مل سکے وہ ساری رات اسی جگہ پر چھپی گزار دیتی ہے صبح کی پو پھٹتی ہے۔
ہر طرف بلوائیوں کے لشکر گشت کررہے ہیں اچانک کہیں سے ایک بلوائیوں کا گروہ اس طرف آنکلتا ہے اور ان کی نگاہ اس نہتی عورت پہر پڑ جاتی ہے وہ سب اس عورت اور اس کے بچوں کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں عورت اس گھیرے کے بیچ اپنے بچوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیتی ہے ایک بلوائی اس کے ہاتھ سے بڑے بچے کو لے کر اس بچے کی گردن مار دیتا ہے۔
ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کا لخت جگر تڑپ کر شہید ہوجاتا ہے ایک بد بخت اس عورت سے دوسرے بچے کو چھین کر ہوا میں اچھالتا ہے اور بچہ جب واپس زمیں کی جانب آتا ہے تو ایک آہنی تلوار اس بچے کے سینے میں پیوست ہوچکی ہوتی ہے معصوم بچہ تلوار میں پرویا ہوا تڑپتا ہے اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جا تی ہے ایک ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کے دو لخت جگر بڑی بے دردی اور سفاکیت کے ساتھ شہید کر دیئے جاتے ہیں۔
اب سب بلوائیوں کا رخ اس نہتی عورت کی جانب ہے وہ گھیرا مزید تنگ کردیتے ہیں عوام اس بازار میں کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے کوئی بھی اس لاچار وبے مددگار عورت کی مدد کرنے کو تیار نہیں وہ سب تو تماش بین ہیں جب تماشہ ختم ہو جائے گا اپنے گھروں کو چلے جائینگے سارے بلوائی عورت کے گرد منڈلا رہے ہیں۔
اور اس کے جسم کو تلواروں اور نیزوں سے کچوکے لگا رہے ہیں عورت کا جسم لہو لہان ہے موت اور زندگی کا یہ کھیل کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور بالاخر وہ مجبور لاچار اور بے بس عورت عین بازار کے بیچ کئی تماش بینوں کی نگاہوں کے سامنے زندگی کی بازی ہار جاتی ہے
یہ ارض پاک تحفے میں نہیں ملی ہم کو
ہزاروں دیپ بجھے تو اک چراغ جلا
حصول پاکستان کے لئے دی گئی ایسی ہزاروں قربانیاں ہیں جو تاریخ کے اوراق میں گم گشتہ ہیں یہ صرف ایک ماں کا کہانی ہے ایسی ہزاروں مائیں تھیں جن کی گود اجڑ گئی جن کے سروں سے سہاگ کا سایہ چھین لیا گیا پاکستان آنے والے مہاجریں کی ٹرینوں کو راستے میں ہی ہندو اور سکھ ملکر لوٹ لیتے اور مسافرو ں کو قتل کر ڈالتے یوں بوڑھوں بچوں اور جوانوں ماؤں بہنوں کی لاشوں سے لدی ہوئی ٹرینیں پاکستان پہنچا کرتیں۔
قیام پاکستان کے بعد یہ صورت حال کئی مہینوں تک بنی رہی اور مسلمانان برصغیر کے مقدس لہو سے یہ زمیں سیراب ہوتی رہی اور آج ہماری قوم کے دلوں سے یہ احساس تک مٹ چکا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس وطن کی مٹی میں ہمارے آباء واجداد کا خون شامل ہے جن کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ ارض پاک ہم کو ملی ہے اور ہم ایک آزاد اور خود مختیار ریاست کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
1947 کے ہنگاموں اور فسادات کی نظر ہو کر شہید ہونے والے وہ ہزاروں افراد کی آنکھیں ہماری طرف دیکھ رہی ہیں کہ ہم اس پاک سرزمیں سے کس طرح لاپرواہ ہو کر خقود ہی اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہیں ہماری انتظامیہ سیاستدان بیورو کریسی اسٹیبلشمنٹ حتی کہ عوام خود کوئی بھی اس پاک سرزمیں سے مخلص نہیں رہا ہر کسی کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہ انہی کو لے کر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے پر تلا ہوا ہے
چلو یہ سوچیں ہم آج مل کر
جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں
14اگست کادن یوم تجدید عہد وفا کادن ہے اس کے تقاضوں کو سمجھیں آج ہم جو کچھ بھی ہیں ہماری جو بھی پہچان ہے وہ ہماری اس پاک سرزمیں کی وجہ سے ہی ہے ہمیں اپنی حب الوطنی اور وطن پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے پاک وطن سے محبت کرنی چاہیئے یہ ایک زمیں کا ٹکڑا نہیں بلکہ دنیا کے نقشے پر موجود ایک ایسی تابناک حقیقت ہے۔
جس نے باطل کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں آج اگر ہم اس وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں تو یہ اللہ تعالی کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا آج ہم دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی ریاست ہیں پاکستان ایک ایسا خطہ ارض ہے۔
جسے قدرت نے اپنی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے اس کے محل وقوع کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی نگاہیں اس پر مر کوز ہیں اور وہ اپنے ناپاک عزرئم کی تکمیل کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں میر جعفر اور میر صادق کی باقیات آج ہمارے اندر ہی موجو د جوکہ اس ملک کو تباہ کرنے پرتلی ہوئی ہیں اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کر کے ملک کو داخلی اور خارجی دونوں محازوں پر تباہ وبرباد کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں لوٹ کرپشن مہنگائی بدامنی کا بازار سر گرم کرکے یہ لوگ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے عوام پاکستان قربانیاں دیتے دیتے تھک چکی ہے اور اقتدار پر قابض چند لوگ اپنی اجارہ داری کے بل بوتے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن وہ شاید بھول چکے ہیں کہ پاکستانی قوم اس سے قبل بھی نازک سے نازک حالات میں بھی سینہ سپر رہی اور آج اگر مملکت پر کڑا وقت آیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم ہار چکی ہتے قوم میں عزم حوصلہ اور جوش ولولہ موجود ہے۔
پاکستانی قوم اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کابدلہ طبقہ اشرافیہ سے ضرور لے گی انقلاب فرانس کے بعد ایک موچی ایک شہزادے کا سر اپنی ہتھوڑی سےکچل رہا تھا اور اس کے سر پر تابڑ توڑ ہتھوڑی سے حملے کر رہا تھا شہزادے نے کہا کہ اسے معاف کردے تو موچی نے کہا کہ عوام اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہیں بھولتی ۔