مغل شہنشاہ جہانگیر کا دور حیات

مغل شہنشاہ جہانگیر مغلیہ سلطنت کے چوتھے وارث کے طورپر سامنے آئے۔ جو جلال الدین اکبر کے اکلوتے بیٹے تھے۔ تفصیل آرٹیکل میں پڑھیے۔

 مغل شہنشاہ جہانگیر کی داستان حیات بھی عجائبات پر مشتمل ہے۔ ستائیس برس کی عمر تک شہنشاہ اکبر کی اولاد نہیں ہوئی اور تخت کی وراثت کےلئے ایک وارث کا ہونا انتہائی ناگزیر تھا۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اولاد نرینہ کی خواہش میں کئی منتیں اور مرادیں مانگیں اور دہلی سے اجمیر شریف تک ننگے پاؤں سفر کر کے درگاہ اجمیر شریف میں دعا مانگی۔

 شہزادہ سلیم الدین جوبعدمیں مغل شہنشاہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہوئے، 9 ستمبر 1569 کو اکبر کی راجپوت رانی جودھا بائی کے بطن سے پیدا ہوا۔ شہزادہ سلیم کی تعلیم اور تربیت پر جلال الدین محمد اکبر نے خاص توجہ دی کیوں کہ اکبر خود تو پڑھ لکھ نہ سکے تھے مگر وہ علم کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے۔

شہزادہ سلیم کی تعلیم و تربیت

شہزادہ سلیم کو اوائل عمری میں ہی فارسی ، ترکی ، عربی ، ہندی زبانیں سکھائی گئیں اور انھیں الجبرا ، حساب ، تاریخ اور جیوگرافی کے مضامین بھی پڑھائی گے۔ سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن کے رائج قوانین کی تربیت بھی دی گئی۔

1581 میں شہزادہ سلیم کابل کی مہم میں محض بارہ سال کی عمر میں شامل ہوا ۔ 1585 میں انھیں 16 سال کی عمر میں مغل فوج کا کمانڈر بنایا گیا۔

شہزادہ سلیم کی بغاوت:

شہزادہ سلیم جب 24 برس کے تھے تو اکبر کی طبعیت شدید بگڑ گئی، اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک ابو فضل نے اکبر سے اپنا خدشہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے شہزادہ سلیم نے آپ کو زہر دیا ہے۔

اکبر نے شہزادہ سلیم کو طلب کر کے پوچھا ” شیخو جب یہ ساری سلطنت تمھاری ہی ہے تو تم نے مجھے زہر کیوں دی ہے؟”۔ شہزادہ سلیم بےقصور تھا اور وہ شدید صدمہ میں واپس لوٹے۔ بعدازاں معلوم ہوا کھانے میں کچھ نقص تھا جس کی وجہ سے سلیم کا معدہ خراب ہوا ہے۔

اکبر اور سلیم کے تعلقات خراب ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک مرتبہ اکبر نے شہزادہ سلیم کو شاہی حرم کشمیر پہنچانے کی زمہ داری سونپی۔

شہزادہ سلیم موسم خراب ہونے کی وجہ سے زمہ داری مکمل نہ کر سکے اور اکبر خفہ ہو کر خود شاہی حرم کو لے کر کشمیر پہنچے۔ شہنشاہ اکبر کو شہزادہ سلیم اور مہرالنسا کے درمیان محبت پر بھی اعترض تھا کیوں کہ مہرالنسا ایک مہاجر ایرانی نژاد تھیں اور اکبر انھیں مستقبل کی ملکہ ہندوستان نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

ابوالفضل کا قتل:

اکبر نے سلیم کے نو رتنوں میں سے ایک ابوالفضل کو قتل کروا ڈالا ، ابوالفضل شہزادہ سلیم کے بجائے شہزادہ شہریار کو ولی عہد مقرر کروانا چاہتے تھے۔

اکبر نے کچھ دنوں تک شہزادہ سلیم کو قید میں ڈال دیا۔ شہزادہ سلیم کو جب رہائی ملی تو اس نے بغاوت کر ڈالی۔ تاہم بغاوت ناکام ہوئی اور کچھ دن قید میں رہنے کے بعد شہزادہ سلیم کو رہا کر دیا گیا۔ تب تک اکبر کے دوسرے دونوں بیٹے کثرت شراب نوشی سے ہلاک ہو چکے تھے اور تخت نشینی کےلئے صرف شہزادہ سلیم ہی موزوں تھے۔

اکبر کی موت:

25 اکتوبر 1605 کو طویل علالت کے بعد مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا انتقال ہوا ۔ حالت مرگ میں ہی انھوں نے شہزادہ سلیم کی تخت پوشی کروائی۔

جہانگیر کی تخت نشینی: جلال الدین محمد اکبر کی وفات کے کچھ دن بعد 3 نومبر 1605 کو شہزادہ سلیم تخت نشین ہوا اور اس نے اپنا نیا لقب جہانگیر اختیار کیا جس کے معنی ہیں جہاں فتح کرنے والا۔

مغل شہنشاہ جہانگیر کی کثرت شراب نوشی :

جہانگیر کو شباب و شراب سے بےحد لگاؤ تھا۔ وہ اپنی سوانح عمری میں خود لکھتے ہیں کہ وہ روزانہ 20 پیالے شراب کے پیتے تھے۔ وہ زیادہ تر وقت اپنے حرم میں خواتین کے ساتھ گزارتے۔ جہانگیر کے حرم میں 18 بیویاں اور سینکڑوں کنیزیں تھیں۔

جہانگیر ایک ظالم حکمران :

جہانگیر نے اگرچہ عدل کی زنجیر بھی نصب کرا رکھی تھی مگر جب ان کا موڈ بگڑ جاتا تو وہ انتہائی سفاک بن جاتے ہیں۔ ان کے ظلم کی کئی قصے ہیں۔

اکبر کا دین الٰہی تو ختم ہو گیا تھا مگر جہانگیر نے شہنشاہ کو سجدہ کرنے کی رسم برقرار رکھی۔ حضرت مجدد الف ثانی کو یہ سجدہ نہ کرنے پر کی ماہ تک قید رکھا گیا اور ان کی ساری جائیداد ضبط کر لی گئی تھی۔

جہانگیر نے ایک شخص کا صرف اس لیے انگھوٹا کٹوا دیا اس نے چمپا کے کچھ درخت کاٹے تھے۔ ایک خواجہ سرا کو زمین میں زندہ گاڑ دیا گیا اس نے نورجہاں کی خدمت پر مامور ایک کنیز کا منہ چوما تھا۔ جہانگیر کے بیٹے خسرو نے جب بغاوت کی تو جہانگیر نے اس کی آنکھیں ہی نکلوا دی تھیں۔ اسے مجرموں کو ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلوانے کا بہت شوق تھا۔

گرو ارجن دیو کا قتل :

یہ سکھوں کے پانچویں مذہبی گرو تھے۔ جب خسرو نے اپنے والد شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تو گرو ارجن دیو نے اس کو رقم مہیا کی تھی ۔ جہانگیر نے گرو ارجن دیو کو قید کیا اور انھیں لاہور میں دریائے راوی کے کنارے موت دے دی تھی۔

جہانگیر اور نور جہاں کی محبت:

نور جہاں جس کا اصل نام مہرالنسا تھا ایک ایرانی نژاد مغل وزیر کی بیٹی تھی۔ جہانگیر اور نور جہاں کا رومانوی آمنا سامنا تب ہوا جب جہانگیر نے پھول توڑنے کےلئے دو کبوتر مہرالنسا کے ہاتھ میں دیے اور جب وہ پھول توڑ چکے تو مہرالنسا کے ہاتھ میں ایک کبوتر تھا ۔ جہانگیر نے دریافت کیا تو مہرالنسا نے اپنے ہاتھ سے دوسرا کبوتر بھی اڑا دیا اور کہا ” ایسے پہلا اڑا ہے”۔

اکبر کو یہ قربت پسند نہ آئی اور انھوں نے مہرالنسا کا نکاح اپنے ایک کمانڈر سے کروا کر اسے صوبیدار بنا کر دور بھیج دیا تاہم جب جہانگیر بادشاہ بنے تو انھوں نے اس مغل صوبیدار کو زہر دلوادیا اور 35 سالہ مہرالنسا سے خود نکاح کر کے اسے نورجہاں کا خطاب دیا۔

جہانگیر کے عید کے وسطی اور آخری دور میں نورجہاں ہی درحقیقت حکمران تھی ۔ نورجہاں کے نام کا سکہ اور مہر جاری کی گئی اور امور سلطنت کے اہم فیصلوں میں اس کا عمل دخل تھا۔ جب جہانگیر کے دو شہزادوں شہریار اور شاہجہان کے درمیان تخت نشینی کی جنگ چھڑی تو نورجہاں نے شہریار کی مکمل حمایت کی اگرچہ وہ ناکام ہوئیں۔

جہانگیر کا قید ہو جانا:

مہابت خان جہانگیر کا ایک قابل جرنیل تھا جو مالوہ اور بنگال کا صوبیدار تھا۔ شہزادہ خسرو اور شہزادہ سلیم کی بغاوتیں اسی نے ختم کی تھیں۔

مہابت خان اور نورجہاں کے درمیان سیاسی رقابت تھی۔ مہابت خان کو نورجہاں کے سیاسی مداخلت بالکل پسند نہ تھی اور نورجہاں بھی اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھی۔

نورجہاں نے مہابت خان کو پہلے دور دراز صوبہ بنگال کا گورنر بنوایا اور پھر اس پر الزامات لگا کر لاہور طلب کر لیا۔ مہابت خان اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ آیا ، دریائے جہلم کے کنارے جہانگیر کا کیمپ تھا اور وہ کابل جا رہا تھا۔ مہابت خان نے اس کیمپ پر حملہ کیا اور مغل شہنشاہ جہانگیر کو قید میں کر دیا۔

مہابت خان جہانگیر کو قید کر کے کابل لے گیا اور خود ہندوستان کا بادشاہ بننے کا اعلان کر دیا۔ نورجہاں نے ایک چال چلی اور خود کو مہابت خان کے حوالے کر دیا۔

نور جہاں نے ایک لشکر پہلے سے تیار کر دیا تھا۔ وہ جب جہانگیر کے ساتھ گرفتاری پر چلی گئی تو مہابت خان کو لگا اب اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا اس لئے اس نے جہانگیر کی حفاظت کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا تھا۔

جہانگیر اور نور جہاں کو جب مہابت خان اپنے ساتھ لاہور لا رہا تھا تو راستے میں مضبوط مغل فوج نے حملہ کیا اور شہنشاہ اور ملکہ ہند کو آزاد کروا دیا ۔

مہابت خان اتر پردیش میں فرار ہو گیا، اسے کبھی سزا نہ ملی بلکہ وہ شاہجہان کے دور میں پھر سے گورنر اجمیر بنا۔ دراصل شاہجہان بھی نورجہاں کے خلاف تھا۔ اس لئے اس نے مہابت خان کی بغاوت پر اس کی سرکوبی نہیں کی۔

شہزادہ خرم کی  مغل شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت:

شہنشاہ جہانگیر کے دو شہزادے تخت نشینی کی رقابت میں تھے ، شہزادہ شہر یار اور شہزادہ خرم ۔ نور جہاں کی تائید شہزادہ شہر یار کو حاصل تھی ۔ شہزادہ خرم نے 1622 کو اپنے والد شہنشاہ جہانگیر سے بغاوت کر دی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی ۔

1622 میں قندھار پر ایرانی افواج نے قبضہ کر لیا ، اس وقت افغانستان بھی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ جہانگیر نے شہزادہ سلیم کو قندھار پر فوج کشی کا حکم دیا مگر شاہجہان نے برسات کے بعد اس شرط پر جانے کی حامی بھری کہ اسے پنجاب کا گورنر بنایا جائے گا۔ دوسرا شاہجہان نےڈولپور کی جاگیر جہانگیر سے طلب کی ، ابھی اجازت نہ ملی تھی کہ شاہجہان نے فوج بھیج دی ۔ نورجہاں نے یہ جاگیر شہزادہ شہریار کو دلا دی ۔

20 ہزار کے لشکر کے ساتھ شہر یار کو قندھار کی بازیابی کےلئے روانہ کیا اور جہانگیر خود شہزادہ سلیم سے لڑنے کےلئے روانہ ہوا۔ شاہجان نے آگرہ پر حملہ کیا مگر اسے ناکام بنا دیا گیا۔ شاہجہان نے بنگال پر قبضہ کر لیا مگر مغل افواج نے اس کو وہاں سے بھی نکال دیا۔

شاہجان تین سال تک اپنے والد سے باغی رہا مگر کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔ 1626 میں اس نے اپنے والد سے معافی طلب کی جو اسے مل گئی ۔ یہ معافی بھی نورجہاں نے دلوائی کیوں کہ تب مہابت خان بغاوت کر چکا تھا۔

جہانگیر کی زنجیر عدل :

جہانگیر نے اپنے محل کے سامنے خالص سونے سے بھی ایک زنجیر عدل نصب کی تھی ، فریادی کسی بھی وقت اس زنجیر کو کھینچ کر اپنی فریاد پیش کر سکتا تھا ۔

مغل شہنشاہ جہانگیر کی اصلاحات :

جہانگیر نے چونگی اور جاگیردارانہ ٹیکس کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔ نورجہاں نے بھی مسافر خانے بنوائے ۔ جہانگیر ہر روز دیوان عام کا اجلاس منعقد کرتے اور عام عوام کے مسائل سنا کرتے تھے۔ وہ خود شراب کے رسیا تھے مگر ریاست میں شراب اور تمباکو دونوں پر پابندی تھی۔

جہانگیر اور یورپین :

جہانگیر کے عہد ہی میں برطانوی بادشاہ جیمز اول نے اپنے دو سفارتکار جان ہاکنز اور سر تھامس رائے ان کے دربار میں بھیجے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کےلئے تجارتی اجازت نامہ حاصل کیا تھا اور انگریزوں نے سورت میں پہلی تجارتی کوٹھی تعمیر کی تھی۔

نور جہاں کی ایجادات:

نورجہاں صرف ایک خوبصورت خاتون نہ تھیں بلکہ وہ ایک ذہین عورت بھی تھیں۔ ان کے نام کئی تاریخی ایجادات ہیں ۔ عطر اور بریانی کی ایجادات کا سہرا انھی کو جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں واقع عطر شیشہ ٹاؤن کے بارے میں کہا جاتا ہے اس جگہ کا نام عطر شیشہ اسی لئے پڑا کہ نورجہاں کشمیر کے سفر کے دوران یہاں اپنی پسندیدہ عطر کی شیشی بھول گئی تھیں۔

تزک جہانگیری :

تزک جہانگیری مغل شہنشاہ جہانگیر نے لکھی تھی ۔ اس میں انھوں نے اپنے روزمرہ حالات و اہم سیاسی معاملات تحریر کئے ہیں۔

جہانگیر کا انتقال:

جہانگیر کو دمہ لاحق تھا اسی لئے وہ مسلسل کشمیر آیا کرتے تھے۔ 1627 کو وہ شدید بیمار تھے جب انھوں نے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا ابھی وہ بھمبر ہی میں تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی آنتوں کو وہیں نکال کر دفن کیا گیا اور باقی جسد خاکی لاہور میں مدفن ہے۔ جہانگیر کے لاہور جائے مدفن پر اس کی بیوہ نورجہاں نے مقبرہ بنانے کا آغاز کیا جس کی تکمیل شاہجہان نے کی تھی۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top